ساحل آن لائن - سچائی کا آیئنہ

Header
collapse
...
Home / اسپورٹس / افغان صدر کی طالبان کو پھر مذاکرات کی دعوت

افغان صدر کی طالبان کو پھر مذاکرات کی دعوت

Wed, 07 Jun 2017 15:55:10  SO Admin   S.O. News Service

کابل،6جون؍(ایس او نیوز/آئی این ایس انڈیا)افغانستان کے صدر اشرف غنی نے ایک بار پھر افغان طالبان کو امن مذاکرات کی دعوت دیتے ہوئے کہا ہے کہ طالبان کے پاس اپنی مسلح جدوجہد ترک کرکے سیاسی عمل کا حصہ بننے کا یہ آخری موقع ہے۔کابل میں ’’کابل پروسس‘‘کے عنوان سے بین الاقوامی کانفرنس کے افتتاحی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے افغان صدر نے کہا کہ اگر افغان طالبان مذاکراتی عمل کا حصہ بننے پر آمادہ ہوں تو وہ انہیں افغانستان میں دفتر قائم کرنے کی اجازت دینے پر تیار ہیں۔’’کابل پروسس‘‘افغان حکومت کی جانب سے افغانستان میں قیامِ امن کے لیے وسیع تر اتفاقِ رائے پیدا کرنے کی ایک نئی بین الاقوامی کوشش ہے۔پیر کو کابل میں ہونے والے پہلے اجلاس میں 23ملکوں اور یورپی یونین، اقوامِ متحدہ اور نیٹو جیسی بین الاقوامی تنظیموں کے نمائندے بھی شریک ہیں۔ اجلاس میں افغانستان میں سکیورٹی اور سیاسی صورتِ حال بہتر بنانے لیے مختلف تجاویز اور اقدامات پر تبادلہ خیال کیا جارہا ہے۔افغان حکومت اس سے قبل بھی کئی بار طالبان کو مذاکرات کی دعوت دے چکی ہے جن کی مسلح جدوجہد 2001ء میں افغانستان پر امریکی حملے کے بعد سے مسلسل جاری ہے اور حالیہ چند برسوں کے دوران اس میں شدت آئی ہے۔طالبان کا موقف ہے کہ افغانستان سے تمام غیر ملکی فوجوں کے انخلا کے بعد ہی افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات ممکن ہیں۔

اپنے خطاب میں صدر اشرف غنی کا مزید کہنا تھا کہ وہ افغانستان کے تمام پڑوسی ملکوں کے ساتھ مضبوط سیاسی اور معاشی تعلقات قائم کرنے کے خواہش مند ہیں لیکن ان کے بقول افغانستان کو پاکستان کی جانب سے مسلسل غیر اعلانیہ جارحیت کا سامنا ہے۔صدر غنی نے کانفرنس کے شرکا سے سوال کیا کہ پاکستان کو کس طرح اس بات پر قائل کیا جائے کہ ایک مستحکم افغانستان، خود پاکستان اور پورے خطے کے لیے فائدہ مند ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغان حکومت کا مسئلہ اور چیلنج یہ ہے کہ وہ نہیں جانتی کہ پاکستان آخر چاہتا کیا ہے؟۔اس کانفرنس کے آغاز سے ایک روز قبل افغانستان کی وزارتِ داخلہ نے الزام عائد کیا تھا کہ کابل کے حساس سفارتی علاقے میں گزشتہ ہفتے ہونے والے ٹرک بم حملے میں استعمال ہونے والا گولہ بارود پاکستان سے لایا گیا تھا۔وزارت کے ایک ترجمان نجیب دانش نے پیر کو صحافیوں کو بتایا تھا کہ افغانستان میں ماضی میں ہونے والی دہشت گردی کی وارداتوں کی طرح حالیہ حملے کا مرکزی منصوبہ ساز بھی پاکستان ہی ہے۔حملے میں لگ بھگ 100افراد ہلاک اور 450سے زائد زخمی ہوئے تھے اور یہ افغانستان کی تاریخ کے چند بڑے بم حملوں میں سے تھا۔پاکستان نے حملے کی مذمت کی تھی اور حملے میں ملوث ہونے کے افغان حکام کے الزامات کو سختی سے مسترد کردیا تھا۔
 


Share: